Friday 25 May 2012

دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے


دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے
بدگُمانی کے سَرد موسم میں
میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے
جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے
وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے
جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی
تب ہُواؤں کے کچھُ وسیلے ہُوئے
کوئی بارش تھی بدگُمانی کی
سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے


No comments:

Post a Comment